• news

سینٹ: وزرا کی عدم موجودگی، اپوزیشن کا احتجاج، فلک ناز کو نہ نکالنے پر حکومتی ارکان کا واک آؤٹ

اسلام آباد (خبرنگار+ نوائے وقت رپورٹ) ایوان بالا میں وفاقی وزراء کی عدم موجودگی پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ ڈپٹی چیئرمین نے وزارت توانائی سے متعلق سوالات موخر کردئیے۔ گزشتہ روز  اجلاس ڈپٹی چیئرمین  سینیٹر سیدال ناصر کی سربراہی میں شروع ہوا۔  وقفہ سوالات کے موقع پر وفاقی وزراء کی عدم موجودگی پر پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ ایوان میں سوالوں کے جوابات دینے کیلئے کوئی بھی وفاقی وزیر موجود نہیں ہے، ہر روز کا مذاق بن گیا ہے۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ اگر ذاتی وجوہات اور بیماری کی بنا پر اگر کوئی وفاقی وزیر نہیں آیا ہے تو کوئی بات نہیں ہے۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہاکہ ایک وفاقی وزیر بیمار ہیں مگر دیگر وفاقی وزراء کہاں ہیں، کیا ہم دیواروں سے باتیں کریں۔  سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہاکہ وقفہ سوالات کے موقع پر وفاقی وزراء کی عدم موجودگی پر اپوزیشن کے اعتراضات جائز ہیں۔  اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ وفاقی وزراء کی عدم موجودگی ایک وطیرہ بن گیا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کی نظروں میں اس ایوان کی کیا حیثیت ہے۔ سینیٹر زرقہ سہروردی نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاوزیر پٹرولیم بہت مصروف ہیں اور اس کے سیکرٹری بھی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یوریا کے کارخانوں کو گیس کی سبسڈی ملتی ہے ان کے نام بھی نہیں بتائے گئے ہیں جس پر وفاقی وزیر پٹرولیم نے بتایا کہ گیس کارخانوں کو سبسڈی گذشتہ دور میں بھی ملتی رہی تھی۔ جیکب آباد میں پولیو ورکر کے ساتھ زیادتی، پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے معاملہ ایوان بالا میں اٹھاتے ہوئے آئی جی سندھ ،ایس پی اور ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر افسروں کو طلب کرنے کا مطالبہ کردیا ۔پی ٹی آئی کی سینیٹر ڈاکٹر زرقہ سہروردی کی جانب سے شعر سے آغاز کرنے پر سینیٹر دنیش کمار برھم ہوگئے اور کھڑے ہوکر کہا کہ محترمہ میں نے آپ کو عزت دی تو آپ نے شعر و شاعری شروع کردی، اگر ہمیں نہیں سنا جائے گا تو ہم چلے جاتے ہیں۔ اگر مجھے بولنے نہ دیا جائے تو میں ایوان کو چلنے نہیں دونگا۔  اس موقع پر سینیٹر زرقہ نے کہاکہ حکومتی سینیٹرز نے چار ضمنی سوال کئے جبکہ مجھے صرف دو سوال بھی پوچھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے کیا میرا تعلق کمزور پارٹی سے ہے۔ سینیٹر منظور کاکڑ نے کہاکہ اس ایوان میں تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں  سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہاکہ ہم پی ٹی آئی کے ساتھ ہمیشہ اتحاد میں رہے ہیں یہاں پر خواتین کارڈ استعمال کیا جارہا ہے اس ایوان میں ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہئے۔سینیٹر فیصل واوڈا نے کہاکہ جو پرسوں ہوا ہے اس پر معافی نہیں مانگی گئی۔ انہوںنے کہاکہ کسی بھی سینیٹر کی بے عزتی ہماری بے عزتی ہے۔ اگر سینیٹر ثمینہ کو عزت نہ دی گئی تو ہم اس ایوان سے بائیکاٹ کریں گے۔  سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ سینیٹر فلک ناز چترالی کو ایوان سے باہر نکالیں، سینیٹر فلک ناز کو 2 ورکنگ دن کے لیے معطل کیا گیا تھا، اجلاس کے دوران حکومتی ارکان نے سینیٹر فلک ناز چترالی کو ایوان سے نہ نکالنے پر کارروائی سے واک آئوٹ کر دیا۔ سینیٹر سعدیہ عباسی کا کہنا تھا کہ ایوان میں کوئی وزیر نہیں، ایوان کی کارروائی ملتوی کریں،زرقہ سہروردی اور دنیش کمار کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بعدازاں سینیٹر دنیش کمار نے  کورم کی نشاندہی کر دی جس پر اجلاس کل سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا احتجاج کرنیوالے ارکان کو پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا۔ وزیراعظم استعفیٰ دیں، عرفان صدیقی نے جواب دیا جو فصل آپ نے بوئی ہمیں کاٹنا پڑ رہی ہے۔ جو واقعہ آپ کے ساتھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ایوان میں پچھلی نشستیں ملنے پر شبلی فراز نے چیئرمین سینٹ کو  خط لکھ دی۔ا متن میں کہا ایک ایک ممبر والی جماعتوں کو پہلی نشستوں پر جگہ دی گئی، نشستیں تبدیل کریں، اپوزیشن کے بنچز پر حکومتی جماعتوں کے ممبران کو ہٹایا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن