الیکشن کمشن کا فیصلہ آئین سے متصادم : پی ٹی آئی مخصوص نشتوں کی حقدار سپریم کورٹ
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) سپریم کورٹ کے 8 ججز نے مخصوص نشستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ 70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی۔ عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ عدالت متعدد مقدمات میں کہہ چکی مکمل انصاف کرتے ہوئے عدالت کسی تکنیکی اصول کی پابند نہیں۔ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن میں بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے۔ انتخابی تنازعہ بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیاکہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے اور ووٹرز نے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا۔ الیکشن کمیشن فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا حالانکہ اس کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے۔ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن ہے، وہ عام انتخابات فروری 2024ء میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ جب الیکشن کمیشن غلطیاں کرتا ہے تو عدلیہ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے تاکہ انتخابی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ سیاسی جماعتیں عوام اور ریاست کے درمیان رابطے، الیکشن کمیشن انتخابی عذرداریوں کے حوالے سے بہت سے فیصلے کرتا ہے۔ اس لئے وہ ایک نیم عدالتی فورم ہے۔ اگر کسی عدالت سے اس کا فیصلہ مسترد ہوتا ہے تو وہ بطور متاثرہ فریق اپیل دائر نہیں کر سکتا۔ لیکن اس معاملے میں ہم نے دیکھا کہ الیکشن کمیشن بطور متاثرہ فریق عدالت کے سامنے اپنا مقدمہ لڑتا رہا۔ پشاور ہائیکورٹ کو پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے درخواست پر فیصلہ کرنے کی بجائے آئین کے آرٹیکل 218 اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 4 اور 8 کے تحت اس معاملے کو واپس الیکشن کمیشن کے پاس بھجوانا چاہئے تھا۔ 8 ججز کے مطابق تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے۔ تمام آزاد ارکان پی ٹی آئی کے ممبر ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہ ہوا تو یہ آئین شکنی ہوگی۔ افسوس کہ دو ججز نے 3 اگست 2024ء کے اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نامناسب تنقید کی۔ آئین اور قانون کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتے‘ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، جس نے 2024 کے عام انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کی متعدد نشستیں جیتی یا حاصل کی ہیں۔ الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی کے 80 میں سے 39 ارکان قومی اسمبلی کو تحریک انصاف ہی کا امیدوار ظاہر کیا ہے۔ اسی بنیاد پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ 15روز کے اندر باقی 41 ارکان کے دستخط شدہ بیانات وصول کرے۔ ان ارکان کی بنیاد پر پی ٹی آئی ہی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔ اس لئے الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جزو ہے۔ ہم دکھی دل کے ساتھ کہتے ہیں کہ دو برادر ججوں، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے ہمارے اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ بنیادی طور پر انتخابی تنازعات دیگر سول تنازعات سے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، برادر ججوں کے 3 اگست کے اختلافی نوٹ میں یہ کہنا کہ آٹھ ججوں کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے، مناسب نہیں ہے، ان کا یہ عمل سپریم کورٹ کے جج کے منصب کے منافی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ بینچ کے رکن کے طور پر وہ قانونی حقائق اور قانون سے متعلق تو اختلاف کر تے ہوئے مختلف رائے دے سکتے تھے اور دیگر ججوں کی رائے پر کمنٹس بھی دے سکتے تھے، انہیں رائے دینے کے لیے وہ وجوہات بھی دینا ہوتی ہیں کہ دوسرے جج کی رائے میں کیا غلطی ہے؟۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جس طریقے سے ان دونوں ججوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کو قلمبند کیا ہے وہ غیر شائستہ ہے، اور انہیں زیب نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے ہی متصادم قرار دے دیا ہے۔ زیادہ پریشان کن یہ بات ہے کہ دونوں جج اپنی رائے دیتے ہوئے حدود سے ہی تجاوز کر گئے ہیں اور انہوں نے 80 کامیاب امیدواروں کو وارننگ دی اور الیکشن کمشن کو کہا ہے 13 رکنی فل کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی تعمیل نہ کرے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایسی رائے ملک کی اعلی ترین عدلیہ کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور دونوں ججو ں کا یہ عمل عدالتی کارروائی اور فراہمی انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ عوام کے پاس حکمرانی کرنے کا اختیار ان کے منتخب کردہ عوامی نمائندوں ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ انتخابات کے عمل میں تمام اتھارٹیز کو شفافیت کو عملی طور پر اپنانا چاہیے۔ ہم نے یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی ایک پارلیمانی جمہوری نظام میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟۔ اور ہمیں اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ دعوی ہے کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی ہی کے امیدوار تھے۔ ووٹروں نے ان کے پی ٹی آئی کے امیدوار ہونے کی بنیاد پر ہی انہیں ووٹ دیے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی۔ عام طور پر کسی مقدمہ میں فریق بننے کے حوالے سے دائر درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ انتخابی تنازعات حل کرنے میں ایک عدالت کی بنیادی ذمے داری ووٹروں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ عدالت نے یقینی بنانا ہوتا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے شفافیت کے اصول کے تحت اپنی ذمہ داری سنبھالیں جبکہ عدالتیں سیاسی مفاد ات اور تعصب سے بالاتر ہوں۔ عدالتیں ووٹرز کے مفاد کے تحفظ میں قانونی معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ ملک کی اعلی ترین عدالت ہونے کی بناء پر سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹروں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ان کے حق نمائندگی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔ اس مقدمہ میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کس جماعت کو کتنی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؟۔ ان نشستوں پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد افراد کا انفرادی حق نہیں ہوتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ پارٹی وکلاء نے اپنے دلائل میں انتخابی تنازعات کی نوعیت اور عدالتوں کی ذمے داری کا معاملہ نہیں اٹھایا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد نہ کروانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا ہے حالانکہ اس کی بنیادی ذمہ داری ملک میںصاف شفاف انتخابات منعقد کروانا ہے۔ انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کی نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دینا الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک اضافی سزا ہے۔ سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے بلے کے نشان سے متعلق مقدمہ میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو ایسا کنفیوژن ہی نہ ہوتا جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکمنامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کئے ہیں۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا شیڈول جاری ہو چکا ہے۔ واضح قانون کے بغیر کسی فریق کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے۔ عدالت کی جانب سے انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ہی ختم ہو گئے ہیں۔ رول 94 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے جوکہ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے ہی متصادم ہے، کیونکہ انتخابی رولز الیکشن ایکٹ ہی کے مطابق بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی قواعد میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود ہی نہ ہو، 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت وہ تصور ہو گی جس کے پاس انتخابی نشان ہو۔ رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51 (6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، ایک سیاسی جماعت کو انتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دینے کا واحد نتیجہ یہ ہے کہ جماعت کو انتخابی نشان نہیں دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس جماعت کے دیگر آئینی اور قانونی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔ ایسا انتخابی قانون جو سیاسی جماعتوں کا انتخابات میں حصہ لینے کا حق تسلیم نہیں کرتا آئین کے آرٹیکل 17(2) کے منافی ہے۔ سیاسی جماعت کو اس کی سرگرمیوں سے محروم کرنا اس کی سیاسی تباہی اور عملاً اس کی تحلیل کے مترادف ہے۔ آئین کے آرٹیکل17 (2) نے سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کے حق کی ضمانت دے رکھی ہے۔ کسی سیاسی جماعت کی تشکیل میں اس کا کام کرنا شامل ہوتا ہے، بغیر کام کرنے کے حق کے سیاسی جماعت بنانے کا حق بے معنی اور بے فائدہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن کے حکام کا غیرقانونی طور پر بڑی سیاسی جماعت کو نہ ماننا ادارے کی حیثیت کو کم کرتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کا رول 94 الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 (5) کے دائرہ کار سے متجاوز ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کا رول 94 آئین کے آرٹیکلز1 (6) (د) اور (ہ) اور 106 (3) (ج) کے منافی ہے، الیکشن ایکٹ کا رول 94 الیکشن ایکٹ اور آئین کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا الیکشن ایکٹ کا رول 94 کالعدم اور غیر موثر ہے۔ عام طور پر عدالت میں یہ ہوتا ہے کہ پہلے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتی اور پھر دادرسی دیتی ہے۔ عدالت اس طریقہ کار میں اس وقت نہیں پڑتی جب عوام کے ووٹ کا تحفظ کا معاملہ ہو۔ عدالت اس طریقہ کار میں اس وقت نہیں پڑتی جب آرٹیکل 17 کی شق دو اور آرٹیکل 19 کا معاملہ ہو۔ ایسے وقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا سامنے سنی اتحاد کونسل تھی، پی ٹی آئی یا کوئی اور جماعت۔ عدالت مکمل انصاف کی طرف جاتی ہے تو رائج طریقہ کار یا پریکٹس کے سبب بے یار و مددگار نہیں ہوتی ہے۔ عدالت انصاف کی جانب جاتی ہے تو یہ انحصار نہیں کیا جاتا کہ کس سیاسی جماعت کی درخواست آئی تھی۔ عوام کے حق رائے دہی کا تحفظ آرٹیکل 17 (2) اور 19 کے تحت ضمانت ہے۔ عدالت آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف دیتے ہوئے کسی تکنیکی یا عملی اصول یا طریقہ کار کی پابند نہیں ہے۔ سیاسی جماعت بنانے کا حق اس کے کام کرنے اور آپریشن تک پھیلا ہوا ہے۔ انٹرا پارٹی انتخابات منظور یا نا منظور ہونے تک منتخب امیدوار پارٹی عہدیدار تصور ہوں گے۔ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر الیکشن کمیشن کے اعتراض پر وضاحت فیصلے کا حصہ بنا دیا ہے۔ پیرا 58 میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر الیکشن کمیشن کے اعتراض کی وضاحت ہے۔ سیاسی جماعت کے عہدیداران الیکشن ایکٹ کی شق 208 کے تحت منتخب ہوتے ہیں۔ منتخب عہدیداران کا سرٹیفکیٹ الیکشن ایکٹ کی شق 209 کے تحت دیا جاتا ہے۔