آئینی عدالت مجبوری، ضروری، بنا کر رہیں گے: بلاول
کراچی (سٹاف رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئینی عدالت ضروری اور مجبوری ہے اس لیے آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔ کراچی میں سندھ ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین سازی اور قانون سازی عدلیہ کے ذریعے نہیں ہو سکتی، 19 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ کی دھمکی کی وجہ سے لانا پڑی مگر اب کچھ بھی ہو میثاق جمہوریت کے مطابق عدالتی اصلاحات لا کر رہیں گے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم نے وہ آمرانہ دور دیکھے جس میں جج صاحبان نے ہی آمر کو اجازت دی کہ وہ آئین میں ترمیم کرلے، ججز دس دس سال تک آئین کو بھول جاتے تھے اور سارا اختیار آمر کو دے دیا جاتا تھا۔ ہمارا وکلاء سے تعلق تین نسلوں سے ہے، میرا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے ملک کو آئین دیا اور ہم تین نسلوں سے آئین سازی کرتے چلے آرہے ہیں، اگر آج پاکستان موجود ہے، طاقتور ہے اور اکٹھا ہے تو 1973ء کے آئین کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آمرانہ دور دیکھے، آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھی دیکھا، ہمارے معزز جج صاحبان کس طرح سے ایک آمر کو یہ کام کرنے دیتے ہیں اور دس دس سال تک آئین کو بھول جاتے ہیں اور سارا اختیار آمر کو دیا جاتا ہے، اس کے بعد مزید آمرانہ دور دیکھا اور شرم ناک بات یہ تھی کہ جج صاحبان نے آمر کو اجازت دی کہ وہ آئین میں ترمیم کرلے۔ بلاول نے کہا کہ اس وقت بھی بے نظیر شہید جج کے سامنے پیش ہوتی تھی اور جج انہیں آئین کا درس دیتے تھے، ہمیں کرپٹ کہا گیا کہ ہم پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، ایک سیاست دان کو ساڑھے گیارہ سال جیل میں رکھا گیا تاکہ اس نہتی (بے نظیر) کو بلیک میل کیا جاسکے۔ بلاول نے کہا کہ ایک بار پی سی او کا حلف ہوجائے تو ہو ٹھیک کہلاتا ہے اور دوسری بار وہی حلف اٹھایا جائے تو جمہوریت اور آئین کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، ہم نے عوام کے لیے چارٹر آف ڈیمو کریسی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم عدالت میں اصلاحات لے کر آئیں گے، قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوتی، آئین سازی کے لیے ہم موجود ہیں، جس ذمہ داری کے لیے عدلیہ بیٹھی ہے وہ کام نہیں ہورہا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ شہریوں کو فوری انصاف ملے اور چاہتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان فرق نہ رہے تو پھر آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہے، اس وفاقی عدالت میں تمام صوبوں کے نمائندے ہوں گے اور باری باری ہر صوبے سے چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا، سیاسی کسیز کو 90 فیصد وقت دیا جاتا ہے کہ عوامی کیسز کی باری نہیں آتی۔ اس لیے آئینی عدالت بنائیں گے جو صرف آئینی معاملات دیکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ کسی جج میں ہمت نہیں کہ وہ سندھ میں آکر اعلان کرے کہ وہ کالا باغ ڈیم بنائے گا، 19ویں آئینی ترمیم عدالت کی دھمکی کی وجہ سے آئی کیوں کہ انصاف دلانے والوں نے 18ویں ترمیم ختم کرنے کی دھمکی دی، پارلیمان کو دھمکی دی گئی کہ آپ کے پورے آئین کو تبدیل کردیں گے، ہمیں ججز تقرری پر نظرثانی نہ کرنے پر آئین میں ترامیم کی دھمکی دی گئی، آج عدالت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ ہمارا عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے مگر ہم عدالتی اصلاحات کے ذریعے عدلیہ کو بحال کریں گے۔ بلاول نے کہا کہ جو ادارے جس کام کے لیے بنے ہیں وہی کام کریں گے، آئینی عدالت ہی دیکھے گی کہ آئین کے کیا مسائل ہیں، ہم آئینی عدالت اس لیے بنائیں گے تاکہ کسی اور وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا نہ جائے اور عوام کو انصاف ملے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں کا احترام کرتا ہوں، جج کی عمر کی حد سے متعلق سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ضروری ہے مگر جہاں تک آئینی عدالت کے قیام کا معاملہ ہے اس میں عمر کی حد کی شرط لاگو نہیں کرنی چاہیے، آئینی عدالت کے جج کی عمر کے بجائے مدت طے کی جائے۔