آئینی ترامیم: سیاسی جماعتوں میں مسودوں کا تبادلہ، خصوصی کمیٹی کا اجلاس آج پھر ہو گا
اسلام آباد (خبر نگار+نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے آئینی ترامیم کے حوالے سے اپنے مسودے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی میں پیش کر دیے۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا جس میں تمام قائدین نے اپنے اپنے مجوزہ آئینی مسودے پر اظہار خیال کیا۔ پی ٹی آئی، جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے اپنا مسودہ کمیٹی میں پیش کیا۔ وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کمیٹی کی کوشش ہو گی کہ تمام جماعتوں کا مؤقف سنا جائے، کوشش ہے اٹھارویں ترمیم کی طرح مشترکہ مسودے پر متفق ہو جائیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا میں دعا کرنے جا رہا ہوں کہ بہتری ہو، میں یقین رکھتا ہوں کہ دعاؤں کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے، اللہ سے جب رابطہ رکھتے ہیں تو اس میں بہتری ہوتی ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا آج کمیٹی کے اجلاس میں کافی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ آج کمیٹی کا اجلاس 12 بجے پھر ہو گا، ہیجان کی کیفیت جو پیدا کر رکھی تھی وہ کم ازکم ختم ہو گئی ہے، ان ترامیم میں ہے کہ جوڈیشل کمشن کا اختیار اور فارمیشن کیا ہونی چاہیے، ان ترامیم میں آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کی ٹرانسفر کیسے ہو گی، یہ چیزیں ہیں۔ کمیٹی اجلاس میں کئی چیزیں سامنے آئیں، پی ٹی آئی نے مسودہ دیکھنے کا ٹائم لیا ہے رائے نہیں دی۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے پہلی بار اپنا ڈرافٹ شیئر کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے جو تجاویز آئیں وہ بھی اجلاس میں شیئر کی گئی ہیں۔ جو تجاویز جے یوآئی کی تھیں وہ بھی یہاں زیر بحث آئیں۔ کوشش ہے کہ اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کب تک اتفاق رائے ہوجائے گا۔ ابھی اس معاملے پر مزید مشاورت ہوگی۔ علاوہ ازیں ہم نے بار بار کہا کہ آپ ڈرافٹ پر اپنی رائے دیں۔ دریں اثناء تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے تصدیق کی ہے کہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ پی ٹی آئی کو دے دیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عامر ڈوگر نے کہا ہے کہ حکومت اس معاملے پر ہفتہ کو عجلت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا چاہتی تھی تاہم کمیٹی میں اس معاملے کو ایس سی او سمٹ تک موخر کرنے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد اب قومی اسمبلی کا اجلاس ایس سی او سمٹ کے بعد ہوگا۔ حکومت نے جو ڈرافٹ دیا ہے، اس میں بھی بہت ابہام ہیں۔ حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے، کمیٹی کے سامنے ابھی بھی پیش کرنے میں ناکام رہی۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے خصوصی کمیٹی کی کچھ نشستیں مزید ہوں گی۔ ہمیں آج ہی حکومت اور پیپلز پارٹی کے ڈرافٹس ملے ہیں۔ آئینی ترامیم ایک بڑا معاملہ ہے، اس میں کچھ وقت لگے گا۔ ڈرافٹس پر اپنی سیاسی کمیٹی اور اکابرین کے ساتھ مشاورت کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے ڈرافٹ میں بالکل وضاحت ہے جبکہ حکومت کے ڈرافٹ میں ابہام موجود ہے۔ حکومتی ڈرافٹ میں وکلاء سے لیا گیا ان پٹ اور کچھ ان کے اپنے نکات شامل ہیں۔دریں اثنا مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کیلئے ہماری تجاویز قبول کرے تو اتفاق ہوسکتا ہے۔ اسلام آباد میں اسلم غوری اور کامران مرتضی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جمعیت علماv اسلام اور پیپلزپارٹی متفقہ مسودے کی طرف آگے بڑھیں، ہم چاہتے ہیں کہ انیسویں ترمیم کو ختم کرکے 18ویں ترمیم کو اصل شکل میں بحال کیا جائے۔ مسودے پر اتفاق اس وقت ہوسکتا ہے جب لچک کا مظاہرہ کیا جائے، کوشش کررہے ہیں کہ مسودے سے قابل اعتراض مواد کو مکمل صاف کیا جائے۔ سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ حکومت نے کالے بیگ میں جو مسودہ بھیجا تھا اسے ہم نے مسترد کردیا تھا، اور عوام میں ہمارے موقف کو پذیرائی ملی۔ اب ہم اور پیپلزپارٹی اتفاق کے بعد مسودہ پی ٹی آئی سے شیئر کریں گے۔ ایک جج کی ریٹائرمنٹ یا توسیع کے معاملے پر عدلیہ کو تقسیم نہ کیا جائے، جج کو جج رہنے دیں، آئینی عدالت یا بینچ کی صورت میں معاملہ طے ہوسکتا ہے، بات صرف اصولوں کی ہے کہ آئینی اور سیاسی معاملات کو الگ عدالت سنے جبکہ دیگر عدالتیں عوام کو بروقت انصاف دیں۔ اٹھارویں ترمیم کے لیے 9 مہینے لگائے تھے تو اس کے لیے 9 دن تو دیے جائیں۔