• news

ملاقاتیں، جوڑ توڑ، مشاورت، عدالت کی بجائے آئینی بنچ بنانے پر اتفاق، کورٹ سے کم، بنچ سے اوپر ادارے کی تجویز زیر غور، بل آج سینٹ میں آنے کا امکان ہے: عرفان صدیقی

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ خبر نگار خصوصی)  صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیراعظم شہباز شریف نے ایوان صدر میں ملاقات کی جس میں آئینی ترامیم اور سیاسی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔ علاوہ ازیںوزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا، اجلاس میں آئینی ترمیم کے حوالے سے اتحادیوں جماعتوں کے رہنماؤں کو اعتماد میں لیا گیا۔ وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران کومشاورت کے لیے بلایا۔ ایم کیوایم ،باپ، ق لیگ ،پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں خالد مقبول صدیقی، اعجاز الحق، خالد مگسی نے شرکت کی۔اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کا معاملہ زیرغور آیا، اجلاس میں چوہدری سالک حسین اور انور الحق کاکڑ بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ آئینی بینچ بنے گا،یقین دہانی کروا دی،  پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس صبح 11 بجے ہو گا۔ دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی سینیٹرز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سمیت اتحادی سینیٹرز نے شرکت کی۔ عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے اتفاق رائے کے بہت قریب پہن گئے ہیں بس ایک پھونک کی دیر ہے۔ انہوں نے آئینی ترامیم آج سینٹ میں لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ترامیم آج سینٹ میں پیش ہونے کا امکان ہے۔ آج دوپہر تک ڈرافٹ تیار کرلیا جائے گا۔ مولانا کا تمام چیزوں پر عمومی اتفاق ہو گیا ہے، کچھ لے دے کا معاملہ ہوتا ہے۔ مولانا کی تجاویز ہم نے مانی ہیں۔ گزشتہ روز جو مسودہ ہم نے دیکھا ہے وہ بڑا جامع ہے۔ بڑی جماعتوں کے  جن چھوٹے نکات پر تحفظات تھے ان کی نوک پلک سنوار دی گئی۔ آئینی  ترامیم پر  اتفاق رائے کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کی تجویز پر حکومت اور پیپلزپارٹی نے آئینی عدالت کے قیام سے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ 26ویں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے آئینی ترمیمی مسودوں پر اتفاقِ رائے کے قیام اور پارلیمانی جماعتوں کے مسودوں کو یکجا کرنے پر گفتگو ہوئی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پی پی پی کا موقف ہے کہ آئینی عدالت  ہو یا بنچ اگر اس کو آئینی تحفظ اور وہ کسی قسم کی مداخلت  سے مبرا ہو تو اسے بنچ پر بھی اعترض نہیں ہو گا۔ اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم کے مابین آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہے اور ایک دو روز میں مکمل طور پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسودے کو حتمی شکل دینے میں کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی اور مسودے میں بہت سی چیزیں پارلیمنٹ کو طاقتور بنانے کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے آج اجلاس میں اپنی تجاویز پیش نہیں کیں۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ سیاستدانوں کو آپس میں ملنا چاہیے، ہم نے عمر ایوب کے تحفظات کو نوٹ کیا ہے لیکن ابھی تک تحریک انصاف کی طرف سے سنجیدگی نظر نہیں آ رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے آئینی کمیٹی میں موجود لوگ بے بس ہیں اور اجلاس میں آکر معمول کی ہی بات چیت کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے مسودہ نہیں دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کا مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ دوسری جانب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ہم نے اپنا مسودہ تیار کر لیا ہے لیکن بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اپنا مسودہ پیش کریں گے۔ آج احتجاج کریں گے۔ پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی ائی کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ ہم آئینی ترامیم پر مخالفت کر رہے ہیں اور حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے نہیں ہیں۔ ارکان کو ایک، ایک ارب روپے تک آفر کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس نماز جمعہ کے بعد دوبارہ ہوگا۔ رہنما ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آئینی ترمیم سے متعلق اتفاق رائے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا کامیاب انعقاد سفارتی میدان میں پاکستان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے، ملکی معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے، معیشت کے استحکام کیلئے سب نے قربانی دی، قومی مفاد کے لئے ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خوشحال پاکستان کی جانب گامزن ہیں۔جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف نے حکومت اور اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے پاکستان میں کامیاب انعقاد پر تمام رہنماؤں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا کامیاب انعقاد سفارتی میدان میں پاکستان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے، اس اجلاس کے کامیاب انعقاد سے پاکستان کی سفارتی پروفائل بین الاقوامی سطح پر مزید مستحکم ہوئی ہے،   وزیراعظم  نے کہا کہ ملکی معیشت مثبت سمت میں گامزن ہے، مہنگائی میں مختصر عرصے میں خاطر خواہ کم آئی ہے، معیشت کے استحکام کی بدولت پاکستان نے 2025 کے اہداف کو 2024 میں ہی حاصل کر لیا۔ 
 اسلام آباد ( نوائے وقت رپورٹ)  حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم  جمعہ کو  سینٹ میں پیش کردی جائے گی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ اور کامران مرتضیٰ نے خصوصی کمیٹی اجلاس میں مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے پر بریفنگ کے دوران یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم پر اسی سے نوے فیصدکام ہوگیا، جمعہ کو انشاء اللہ ترامیم سینٹ میں پیش کردی جائیں گی۔ نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ایک ایسے ادارے کی تجویز ہے جو آئینی عدالت سے نیچے اور بنچ سے اوپر ہو گا۔ آئینی بنچ کے مولانا کے مؤقف پر بہت ٹھنڈے دل سے غور کیا گیا۔ مولانا کے سامنے اب یہ آپشن نہیں ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جائیں یا پی ٹی آئی کے ساتھ۔ آئینی عدالت کے ججز خود بخود مقرر نہیں ہوں گے‘ انہیں مقرر کیا جائے گا۔ چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق جے یو آئی نے گزشتہ روز کمیٹی میں کوئی بات نہیں کی۔ چیف جسٹس سینئر موسٹ جج ہی ہو گا یا نہیں‘ اس پر بات ہو رہی ہے۔ رہنما مسلم لیگ ن رانا ثناء اﷲ نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ آئینی عدالت نہیں بن رہی۔ ڈویژن ’’بنچ‘‘ کو ہی کہتے ہیں‘ وہ بنے گا۔ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات میں طے ہو گیا تھا کہ بنچ بنے گا۔ اب آئین اور پارلیمان کی بالادستی ہو گی۔ ہم مولانا فضل الرحمن کو منانے کیلئے اٹھے تھے اور وہ خود مان گئے۔ مولانا اب پی ٹی آئی کو منا کر دکھائیں۔ جو مقاصد حاصل کرنا مقصود تھے ان کا کافی حد تک ازالہ ہو گیا۔ آئینی عدالت کیلئے بلاول بھٹو نے بہت محنت کی ہے۔ بدھ کے روز لاہور میں جو میٹنگ ہوئی وہ پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔ پی ٹی آئی جھگڑا اور انتشار چاہتی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان نے تصدیق کی کہ آئینی بنچ پر اتفاق ہوا ہے،لیکن ان کی رائے ابھی بھی آئینی عدالت ہے۔ جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت کا پہلا مسودہ مسترد کیا اور آج بھی کرتے ہیں، تین ہفتوں سے بحث اور مشاورت کا عمل جاری ہے، ہمارے اراکین پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، انہیں خریدنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔تحریک انصاف کی قیادت کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ  اس معاملے پر ہم  نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے اور نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ افہام و تفہیم کیساتھ آگے بڑھنا ہے تو ہم نے خوش آمدید کہا ہے، دو دن قبل بلاول بھٹوکیساتھ بیٹھ کر اس پر طویل بحث کی، چار گھنٹوں تک نواز شریف سے بھی طویل بات ہوئی، جن چیزوں پر اتفاق ہواجبکہ باقی متنازع چیزوں پر بات چیت جاری ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تحریک انصاف اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی کا رویہ مثبت ہے۔ مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا۔  ترمیم کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بار کونسلز اور پاکستان بار کونسل کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ ہمیں کچھ ایسی اطلاعات ملیں کہ حکومت ہمارے مفاہمت کے رویے کو سنجیدہ نہیں لے رہی، دوسرے کو دھمکی دی گئی اور تیسرے کو بھاری معاوضے کی پیش کش کی گئی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اختر مینگل کی جماعت کی رکن کے ساتھ بھی واقعہ پیش آیا، اگر حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا سلسلہ ترک نہ کیا تو پھر ہم مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائیں گے، اگر حکومت دلیل سے بات کرے گی تو ہم دلیل سے جواب دیں گے، حکومت کی بدمعاشی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور جو رویہ اختیار کیا جائے گا اْسی طرح جواب دیں گے۔ حکومت جو حرکتیں کررہی ہے اْس پر ہم اپنا ردعمل دیں گے، اگر متنازع ترمیم کو گردنیں توڑ یا ہاتھ موڑ کر منظور کروایا گیا تو پھر ہم کہیں گے کہ اس نامزد پارلیمنٹ کو اتنی بڑی آئین و قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم بڑے دل کے ساتھ مولانا صاحب کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوئے اور پہلے ہی دن طے کیا تھا کہ آپ کے ساتھ ملکر آْگے بڑھیں، خصوصی کمیٹی میں پہلے دن سے ہم نوٹس میں لے کر آئے کہ ہمارے اراکین اسمبلی کو اغوا اور فیملی کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ حکومتی رویے پر ہمیں شدید تحفظات ہیں، ہمارے اور مولانا کے درمیان کئی چیزوں پر اتفاق ہوگیا ہے، اگر حکومتی رویہ یہی رہا تو پھر ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) آئینی  ترامیم کے پیکج کے حوالے سے کوئی چیز حتمی نہیں ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور فورمز کی جانب سے درجنوں کے حساب سے تجاویز موجود ہیں، ان میں سے  وہی حتمی پیکج  کا حصہ بنیں گی جن کی تائید نواز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری کریں گے۔ ان کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ پیپلز پارٹی صرف نام کی حد تک پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہے، سیاسی جماعتوں کی طرف سے جو تجاویز  سامنے ہیں، ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے 5 یا 9 رکنی آئینی بنچ کے قیام کی تجویز ہے اس کے ساتھ سہہ رکنی آئینی بنچ کی تجویز بھی ہے، جبکہ صوبوں میں آئینی بنچ تشکیل نہ دینے کی تجویز ہے۔ آئینی بنچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کرے گا جبکہ آئینی بنچ کا سربراہ ہی جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا۔ آئینی بینچ میں رد و بدل کا اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ کا نہیں ہو گا جبکہ آئینی بنچ کے تقرر کی میعاد مقرر ہوگی۔ اسی طرح ازخود نوٹس کا سپریم کورٹ کا اختیار ختم کرنے کی بھی ترمیم میں تجویز دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے ہو گا۔ اسی طرح چیف جسٹس کی میعاد 3سال کرنے کی بھی تجویز ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہ ہونے پر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ 19ویں آئینی ترمیم کو مکمل ختم کرنے کی تجویز جبکہ آرٹیکل48 میں بھی ترمیم کی تجویز ہے۔ کوئی عدالت یا اتھارٹی اس فیصلے کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گی۔ آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کا بھی فیصلہ جبکہ فلورکراسنگ پر نااہلی ختم کرنے کی تجویز دی گئی۔ آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے تحت پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ شمار  کرنے کی بھی تجویز ہے۔ ذرائع کے مطابق آرٹیکل 48 میں ترمیم بھی مجوزہ آئینی ڈرافٹ میں شامل‘ ہائیکورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہو گا۔ آرٹیکل 175 اے، جوڈیشل کمشن کے موجودہ ارکان برقرار، 4 ارکان پارلیمنٹ شامل کیے جائیں گے، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئرپرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کر سکتے ہیں، چیئرپرسن 15روز میں اجلاس بلانے کا پابند ہوگا، اجلاس نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا۔آرٹیکل 63 میں ترمیم، دہری شہریت کا حامل الیکشن لڑنے کیلئے اہل قرار پائے گا، منتخب ہونے پر 90 روز میں غیر ملکی شہریت ترک کرنے کی پابندی ہوگی، آرٹیکل 63 اے میں ترمیم، منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو گا۔آرٹیکل 111 میں ترمیم، صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا۔ آرٹیکل184 (3) کے تحت سوموٹو یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک جاری کر سکے گی۔  آرٹیکل 186 اے میں ترمیم، سپریم کورٹ مقدمہ، اپیل کسی اور ہائیکورٹ کو منتقل کرنے کی مجاز ہو گی، آرٹیکل 186 اے میں ترمیم، سپریم کورٹ انصاف زیر سماعت مقدمہ اپیل یا خود کو بھی منتقل کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔ تجویز ہے کہ آرٹیکل 209 میں ترمیم، چیف جسٹس پر ریفرنس کی صورت میں سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جا سکے گا، ججز کو ہٹانے کی وجوہات میں ناقص کارکردگی کو بھی شامل کر دیا گیا، اس کے لئے ججز کی کارکردگی پر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو بنیاد بنایا جائے گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹریٹ اور ایک سیکرٹری کی سربراہی میں سٹاف کی تجویز کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی ڈرافٹ کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچ بنے گا۔ آئینی بنچ پر پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت کو اعتراض نہیں ہے۔ پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ججز کے نام تجویز کرے گی۔ ذرائع کے مطابق پارلیمنٹری کمیٹی کی ہیئت کو بھی بدلا جائے گا‘ پارلیمانی کمیٹی اپنی تجویز وزیراعظم کو بھیجے گی‘ صدر کے دستخط سے وہ نوٹیفائی ہو جائے گا‘ ڈرافٹ کے مطابق جوڈیشل کمشن کی تشکیل میں چھ ججز شامل کرنے کی تجویز ہے‘ ڈرافٹ کے مطابق جوڈیشل کمشن میں وزیر قانون‘ اٹارنی جنرل ‘ ایک سپریم کورٹ کا ریٹائر جج‘ کچھ وکلاء‘ ایم این اے اور سینیٹر کو شامل کرنے کی تجویز ہیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نوے روز تک دوہری شہریت رکھنے اور اس کے بعد استعفیٰ دینے کی تجویز پر پی ٹی آئی کے تحفظات ہیں۔ جے یو آئی ف کا کہنا ہے کہ اس وقت سنیارٹی کی بنیاد پر ہی چیف جسٹس کی تقرری کی جائے ۔ اس کے بعد تین ججز والی بات کی جائے۔ ڈرافٹ میں چیف جسٹس کی تقرری کے معاملے پر جے یو آئی کو تحفظات ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئینی بنچ کے معاملے پر پی ٹی آئی مان جائے گی۔ پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا اجلاس آج ساڑھے 12 بجے دوبارہ ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن