کالے سانپ کے دانت توڑ کر زہر نکال دیا، فضل الرحمن: ہمارے این ایز، سینیٹرز کو ہراساں کیا گیا، بیرسٹر گوہر
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سینٹ اجلاس سے قبل گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ کر اس کا زہر نکال دیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ہم 26ویں ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی اور ان کو بل کے حوالے سے اپنے حتمی موقف سے آگاہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیر سٹر گوہر نے کہا کہ حکومت آئین مین ترمیم کرنے جارہی ہے، مولانا نے جوکردار ادا کیا، جس بردباری کا مظاہرہ کیا، اس پر ہم مولانا کے بیحد مشکور ہیں، ہمارا مولانا سے تعلق اسی طرح رہے گا، ہماری آج بھی مولانا فضل الرحمٰن سے طویل مشاورت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئین میں ترمیم کرنے جارہی ہے، آئین میں ترمیم سنجیدہ مسئلہ ہے، ہم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کی مرضی اور مشاورت سے کرتے ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم ایک اصولی مؤقف دے چکے ہیں، ہمارے ایم این ایز، سینیٹرز کو ہراساں کیا گیا، ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس بل پر پی ٹی آئی ووٹ نہیں دے سکتی، ہم اس سارے عمل میں شرکت نہیں کریں گے، ترمیمی بل پر ووٹ نہیں دیں گے۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تحریک انصاف کا شکرگزار ہوں، پی ٹی آئی کا ووٹنگ میں حصہ نہ لینا ان کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ تحفظات رہ جاتے ہیں۔ اس پر پی ٹی ائی نے اتفاق کیا، متن پر اب کوئی جھگڑا نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ لیکن تحریک انصاف کے حالات ایسے ہیں کہ جیسا کہ کل انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اور ان کی حالت زار جو انہوں نے ہمیں بتائی، ان کے مظاہروں پر تشدد ہوئے، ان کے کارکن گرفتار ہوئے، اس پر احتجاج کرکے اگر وہ ووٹنگ میں حصہ نہیں لے رہے، یا اس کارروائی کا حصہ نہیں بنتے تو میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ان کا حق بنتا ہے۔ لیکن کیونکہ بنیادی مسودے پر اختلاف نہیں ہے، ظاہر ہے ایک لمبا عرصہ ہم نے نمائش کے لیے نہیں گزارا، ایک مہینہ ہم نے مذاکرات کیے، میڈیا نے ہمیں کوریج دی، یہ ساری چیزیں ایک سنجیدہ عمل ہے۔ آئین پاکستان اس ماحول میں بنا جب بلوچستان اسمبلی توڑ دی گئی، میرے والد صاحب نے اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا، اس ماحول میں بھی آئین بنا، اختلاف رائے پھر بھی برقرار رہا لیکن آئین بن گیا۔ 18ویں ترمیم منظور کی گئی، حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھی رہی، آئین قوم کا ہوتا ہے، ہم نے مل کر ایک محنت اور کوشش کی لیکن ایک جماعت کی کوئی مخصوص پوزیشن ہوتی ہے، اس پر ہم اس پر جبر نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے اس معاملے پر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حق پر ہیں، اس میں وہ ایک جائز احتجاج کر رہے ہیں، لیکن چونکہ اب اتفاق رائے ملکی سطح پر ہو رہا ہے، ہم نے ان کا جو بل مسترد کیا، اب وہ نہیں رہا، اس میں سے سب کچھ نکال دیا گیا ہے۔ آج کوئی شخصیت ہے، کل نہیں ہے، زندہ ہے، فوت ہوگئی ہے، بہت سی چیزیں ہیں، سنیارٹی بھی ایک وجہ ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن کارکردگی بھی اہم ہے، فٹنس بھی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم نے کہا تھا کہ دو، تین پینل بنیں، ان میں سے ہر حوالے سے دیکھا اور انتخاب کیا جائے تو شاید ایک صحت مند روایت بن جائے۔