سینٹ، قومی اسمبلی: 26ویں آئینی ترمیم 2 تہائی اکثریت سے منظور
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی سے بھی 26 ویں آئینی ترمیم 2 تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں اجلاس رات 4 بجے تک جاری رہا۔پی ٹی آئی ارکان نے واک آئوٹ کیا ۔ 26 ویں ترمیم ایوان میں پیش کرنے کی تحریک پر 225 ارکان نے ووٹ دیئے۔ تحریک وزیر قانون نے پیش کی۔ 12 ارکان نے مخالفت کی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے پراسیس میں سب سے زیادہ کردار مولانا صاحب کا رہا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی تیاری میں سب سے زیادہ محنت مولانا فضل الرحمنٰ نے کی ہے اس بل میں مولانا فضل الرحمنٰ کا کردار تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ سیاست میں اپنے والد کے بعد اگر کسی کو مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمنٰ ہیں۔ بل میں سب سے زیادہ محنت میری نہیں مولانا صاحب کی ہے۔ پارلیمان اور آئین کی عزت رکھنے میں بھی مولانا فضل الرحمنٰ کا اہم کردار ہے۔ حکومت‘ اتحادی‘ اپوزیشن میں جتنا اتفاق رائے حاصل ہو سکتا تھا وہ کیا اپوزیشن بے شک ووٹ نہ دے یہ ان کا حق ہے آئینی ترمیم میں ن لیگ کے سب سے کم اور پی پی‘ جے یو آئی کے زیادہ نکات ہیں ۔ ترمیم میں 99 فیصد اعتراضات پی ٹی آئی کے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے دوران اتفاق رائے پیدا کیا تھا 18 ویں ترمیم کے وقت آئین سے آمر کے تمام کالے قوانین کو نکالا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کا مشن مکمل اتفاق رائے کے قریب ہے۔ ترامیم سیاسی جماعتوں‘ جمہوریت کی فتح ہے۔ ملک میں کالا سانپ افتخار محمد چودھری والی عدلیہ ہے۔ ڈکٹیٹرشپ کو کامیاب کرانے کیلئے عدالت نے صف اول کا کردار ادا کیا۔ ہم نے 58 ٹو بی نکالی تو عدلیہ نے اس کا اختیار اپنے پاس لے لیا یہ ہے آمرانہ دور میں آئین کا تحفظ کرنے والوں کا کردار وردی میں صدر کا الیکشن لڑنے کی اجازت بھی عدالت نے دی۔ منتخب وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ مشرف نے راج کیا اجازت عدالت نے دی۔ ہم قربانیاں دیکر آمر کو بھگاتے ہیں تو عدلیہ کو آئین‘ جمہوریت اور قانون یاد آ جاتا ہے۔ جمہوری دور میں عدالت کو جمہوریت یاد آ جاتی ہے۔ جسٹس دراب پٹیل‘ افتخار چودھری کی طرح پی سی او جج نہیں تھے کالا سانپ پارلیمان کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ افتخار چودھری کی عدالت ہے جسٹس دراب پٹیل نے انسانی حقوق کمشن کی بنیاد رکھی اور آئینی عدالت کی تجویز دی جس میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو۔ 2006 ء میں میثاق جمہوریت کے ذریعے طے کیا کہ آئینی عدالت بنے گی۔ مولانا فضل الرحمنٰ اور پی ٹی آئی کے مطالبے پر آئینی عدالت کا مطالبہ چھوڑ کر آئینی بنچ بنانے جا رہے ہیں ۔آج ہم قائداعظم کا مشن پورا کرنے جا رہے ہیں۔ ایک وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کر دیا گیا جب سینٹ کو بنایا گیا تو کسی نے یہ نہیں کیا کہ پارلیمان کے اوپر پارلیمان بنا رہے ہیں۔ آئینی بنچ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہو گی۔ عام آدمی کو جلد انصاف ملے گا۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے خطاب کرتے کہا کہ حکوت آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جا رہی ہے۔ آئینی ترمیم کے مسودے میں ووٹ کو ذلت دو کا لفظ بھی لکھ دیتے تو اچھا ہوتا۔ جمہوریت کے دعویدار کیوں خیال نہیں کرتے کہ ایوان میں ارکان خریدے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے چوتھے فلور پر ہمارے 5 لوگ رکھے گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمنٰٖ نے درست کہا تھا ایک کالا تھیلا تھا اور ایک کالا سانپ تھا یہ آزاد عدلیہ کا گلا گھونٹنے کا عمل ہے۔ آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہمارے ارکان جو حکومتی بنچز پر بیٹھ گئے ہیں انہیں ہماری صفوں میں آنے کا کہا جائے، دھاندلی سے بنی حکومت آئینی ترمیم نہیں کر سکتی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایوان میں خطاب کرتے کہا ہے کہ اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکہ 1958ء میں پڑا تھا جب پہلا آئینی حادثہ ہوا، ہماری عدلیہ نے اس ڈاکے کی توثیق کی۔ یہاں جو چار ایم این ایز آئے ہیں۔ انہوں نے آزاد الیکشن لڑا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ واحد آدمی ہیں جنہوں نے عدلیہ کی عزت بحال کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عزت سے گھر جا رہے ہیں۔ چند سال سے عدلیہ میں جو جھگڑا چل رہا ہے وہ صرف ایک گروپ کی اجارہ داری کیلئے ہے ہمیں عدلیہ کو آزاد کرنا تھا لیکن اتنا نہیں کہ وہ ہماری آزادی ہی چھین لے۔ قاسم سوری نے آدھے گھنٹے میں 54 بل منظور کئے تھے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں 5 آزاد ارکان بھی پہنچ گئے۔ چودھری الیاس‘ عثمان علی‘ مبارک زیب‘ ظہور قریشی اور اورنگزیب کھچی قومی اسمبلی اجلاس میں پہنچنے والوں میں شامل ہیں۔ پانچوں ارکان پی ٹی آئی کی حمایت سے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ دریں اثناء بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن ‘ زین قریشی‘ مقداد حسین‘ ریاض فتیانہ حکومتی لابی میں موجود تھے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کیلئے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے کہا کہ آج بڑا تاریخ ساز دن ہے، آج 26 ویں آئینی ترمیم سینٹ نے منظور کی۔ میثاق جمہوریت پر شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کئے بشمول چیئرمین تحریک انصاف کے بھی دستخط تھے۔ میثاق جمہوریت کے بہت سے نکات پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔ 6 اور 7 سال والے چیف جسٹس آئے تو سب نے دیکھا کہ کیا ہوا۔ مانگنے کچھ جاتے ہیں دے کر کچھ بھیج دیا جاتا ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے سینٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد خطاب کرتے کہا کہ یہ چارٹر آف ڈیموکریسی کا نامکمل ایجنڈا تھا جو پورا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اتفاق رائے کی پوری کوشش کی، دل کی گہرائیوں سے اپنے ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انشاء اﷲ یہ ترمیم قومی اسمبلی سے بھی پاس ہو گی۔ آئینی ترمیم کے حوالے سے غلط فہمی بھی پھیلائی گئی۔ آئینی ترمیم کسی کا ذاتی ایجنڈا نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ عام آدمی کو انصاف ملے۔ خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر نے بھی آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری دی۔ شیری رحمان‘ نوید قمر‘ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دن رات کام کیا۔ کامران مرتضیٰ نے بھی بھرپور رہنمائی کی اور آئینی ترمیم کو منظور کرنے میں حصہ ڈالا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ضابطہ فوجداری قانون میں 100 ترامیم لانے کا اعلان کیا اور کہا کہ عام لوگ کئی کئی سال انتظار کرتے ہیں مگر ان کے معاملات حل نہیں ہوتے۔ ترامیم سے عام عوام کو سستا اور فوری انصاف ملے گا‘ ملک میں استحکام آئے گا۔ صدر مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے ایوان سے خطاب کرتے کہا کہ خواجہ آصف کو ایک شعر دینا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنی تقریر کے آخر میں پڑھ کر سناتے۔ تاہم خواجہ آصف اپنی تقریر ختم کر چکے اجازت ہے تو میں پڑھ دیتا ہوں، جو دکھ ہم نے عدلیہ کے ہاتھوں اٹھائے ہیں۔ عدلیہ کے کردار پر ایک شعر ہے ’’نازو انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہو گا‘ زہر بھی دیتے ہیں تو پینا ہو گا‘ جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں‘ جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا‘‘ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایوان میں خطاب کرتے کہا ہے کہ میری تقریر تنقید کے بدلے تنقید نہیں۔ ایک یہ تجویز تھی کہ ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ایک اور تجویز تھی کہ ججز کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیا جائے۔ آئین مقدم ہے۔ یہاں جھگڑا شخصیات کے حوالے سے ہے۔ ترمیم کیلئے بلاول بھٹو‘ نواز شریف‘ شہباز شریف اور ایوان میں موجود تمام لوگوں کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ایک جج سے حکمران پارٹی اور دوسرے سے حزب اختلاف کی پارٹیاں گھبرا رہی ہیں۔ آئینی ترمیم پیش کرنے پر بلاول بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آئین میں ترمیم دوتہائی اکثریت سے ہی ہوتی ہے۔ ان کاوشوں میں میرے ساتھ پی ٹی آئی بھی شامل رہی۔ پی ٹی آئی شکایت کر رہی ہے ان کا لیڈر جیل میں کس حالت میں ہے۔ بانی پی ٹی آئی پر ہونے والی سختیوں کی مذمت کروں گا۔ آئینی ترمیم میں بہت بڑا فیصلہ ہو رہا ہے کہ 2028ء کے بعد ملک سے سودی نظام ختم ہو گا۔ شریعت کورٹ ایک سال میں فیصلے کی پابند ہو گی۔ اگر نواز شریف‘ آصف زرداری کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اگر میں آپ کے ساتھ کھڑا تھا تو آج بانی پی ٹی آئی پر مظالم کی مذمت کروں گا۔ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے کہا کہ ملکی استحکام اور وسیع تر قومی مفاد میں آئینی ترمیم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بااختیار بلدیاتی نظام حکومت کو مؤثر بنایا جائے۔ وسائل بھی دیئے جائیں۔
اسلام آباد (خبر نگار+ نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی۔ بل کے حق میں65 جبکہ مخالفت میں 4 ووٹ پڑے۔ وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ہم نے قاضی فائر عیسی کیلئے کوئی ترامیم نہیں کی ہیں ۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ کے اہم اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کی منظوری دی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں وزیرِ قانون و انصاف نے 26 ویں آئینی ترمیم پر دوبارہ تفصیلی بریفنگ دی۔ وفاقی کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کا 26 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا۔ سینیٹ میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کیلئے تحریک پیش کی۔ آئینی ترامیم کی شق وار منظوری کیلئے سینٹ کے ایوان کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے حکم دیا کہ سینٹ کی گیلری صاف کروا کے دروازے بند کر دیئے جائیں‘ لابیز اور وزیٹر گیلری کو خالی کر دیا جائے۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ رانا ثناء اﷲ اور اٹارنی جنرل کو باہر بھیجا جائے۔ حکومتی ارکان نے کہا کہ یہاں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے۔ چیئرمین سینٹ نے اپوزیشن سے مکاملہ کرتے کہا کہ آپ صرف 5 لوگ ایوان میں بیٹھے ہیں‘ گنتی کیا کروں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں حکومتی ووٹ 58‘ بی این پی مینگل کے 2 اور جے یو آئی (ف) کے 5 ووٹ شامل ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کی تقرری سے متعلق ترمیم منظور‘ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ آئینی بنچ سے متعلق آئینی ترمیم کی شق منظوری‘ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری اور تعیناتی سے متعلق ترمیم منظور کر لی گئی۔ اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ شقوں پر ووٹنگ کے دوران سنی اتحاد کونسل‘ پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کے ارکان بائیکاٹ کر کے ایوان سے چلے گئے۔حکومت نے سینٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی۔ جے یو آئی (ف) کی مجوزہ ترمیم حکومت نے تسلیم کر لی۔ حکومت کا نمبر 58 سے بڑھ کر 65 ہوگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دوتہائی اکثریت سے حاصل ہو گئی۔ چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینٹ کا اجلاس تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا تو قائد ایوان اسحاق ڈار نے ایوان میں وفقہ سوالات اور معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی اور اس تحریک کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک ایوان میں پیش کر دی جس کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا سپریم کورٹ میں درخواست دائر کروائی گئی اور عجلت میں 19 ویں ترمیم کی گئی اور اس میں مذکورہ کمپوزیشن کو بدل دیا گیا۔ جھکاؤ ایک ادارے کی طرف کردیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو نے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ان تھک محنت کی، اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ترمیم پر اتفاق رائے ہوا اور 26 ویں آئینی ترمیم آج پارلیمنٹ میں پیش ہونے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج انصاف کی فوری فراہمی سے متعلق اہم قدم ہے، چیف جسٹس پاکستان کی تقرری اس پیکج کا حصہ ہے اور چیف جسٹس کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ترمیم میں صوبوں میں آئینی بینچز کا مکینزم شامل کیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے اس میں شقیں شامل ہیں، غیر مسلم ممبر کو بھی جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنایا جائے گا جبکہ صوبائی جوڈیشل کمیشن کی شکل وہی رہے گی مگر جو نئی چیز شامل کی وہ پرفارمنس ایویلیو ایشن ہے۔ وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ جے یو آئی نے آئینی ترامیم میں 5 تجاویز دی ہیں، جے یو آئی کی سود سے متعلق تجویز کو آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی سود کے خاتمے سے متعلق آبزرویشن دی تھی، یکم جنوری 2028 سے سودی نظام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس سے قبل بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سینیٹرز نسیمہ احسان جبکہ بی این پی مینگل کے سینیٹر قاسم رونجھو بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔ قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان مبینہ منحرف ارکان میں شامل ہیں۔ سوال پر قاسم رونجھو کا کہنا تھاکہ میں اپنے گھر سے آرہا ہوں اور میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دوں گا۔ ایوان میں خطاب کرتے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ججوں کے تقرر میں پارلیمان کا کردار عدلیہ پر حملہ کیسے ہو گیا؟ دنیا میں کس ملک میں ججوں کے تقرر کا فیصلہ جج کرتے ہیں؟ شیری رحمان نے کہا کہ بتائیں کہ اس بل میں کون سا ناگ ہے؟ ہم کالے یا سفید ناگ کے آگے بین نہیں بجاتے‘ اگر کالا ناگ تھا تو ختم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس آئین کی بنیاد رکھی‘ بار بار یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یہ سیاسی مقاصد کیلئے ہے۔ پیپلز پارٹی نے 73 کے آئین کی بنیادی اتفاق رائے سے رکھی‘ ہم فخر سے سیاست کرتے ہیں‘ سیاست گلی کا کچرا نہیں‘ ہم یہاں قربانیاں دے کر پہنچے ہیں۔ ملک کے حالات دیکھیں‘ اسے توڑنا ہے یا تعمیر کرنا ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ 58 ٹو بی کو تمام جماعتوں نے تگ و دو کر کے ہٹایا‘ پارلیمان حقوق مانگے تو کہا جاتا ہے آپ سیاسی مقاصد کیلئے کر رہے ہیں‘ بلاول بھٹو نے بار بار سمجھایا کہ پارلیمان اپنے حقوق مانگے‘ کہا جاتاہے اپنی جان بچانے کیلئے یہ کرتے ہیں‘ ان حالات میں بھی صوبوں کے حقوق سلب ہوتے ہیں۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ سیاست کوئی کچرا نہیں ہے‘ ہم فخر سے سیاست کرتے ہیں‘ سیاست کوئی گندا لفظ نہیں ہے‘ ہم قربانی دے کر یہاں پہنچے ہیں۔ یہ سینٹ وفاق کو بچانے کیلئے سقوط ڈھاکہ کے بعد وجود میں آئی۔ اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ فائز عیسٰی جیسے ججز کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ فخر ہے ہم نے جسٹس ثاقب نثار، جسٹس گلزار اور جسٹس کھوسہ جیسے ججز کی تقرری روک دی ہے۔ ساسو ماں کے فیصلے ہوتے تھے، اب ساسو ماں کے فیصلے نہیں آئیں گے۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی میں ایک ہی بہترین چیز ہے، وہ ان کا چیئرمین بیرسٹر گوہر ہے، بیرسٹرگوہر کو خود پی ٹی آئی نے چیئرمین چنا ہے، یہ اسی کو نہیں مانتے۔ 4 نکات نہیں ہیں، جے یو آئی کی وجہ سے 4 نکات ہٹائے گئے، لائیں وہ نکات، میں سپورٹ کروں گا۔ سینیٹر فیصل سبزواری نے سینٹ خطاب میں کہا ہے کہ عام لوگ میں کئی سالوں تک عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا جب عدلیہ لوگوں کا کیس سنے گی تو عوام کی بہتری ہوگی۔ سینیٹر جے یو آئی مولانا عطاء الرحمن نے سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو صرف آئین نے بچایا ہے۔ آئین 1973ء میں بھٹو اور ممبران کا بنیادی کردار تھا، آج اگر پارلیمنٹ محفوظ ہے تو اس آئین کی وجہ سے ہے۔ پی ٹی آئی سے درخواست ہے ہمارے ساتھ آئے۔ سینیٹر راجا ناصر عباس نے سینٹ سے خطاب میں کہا ہے کہ آئین میں قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے۔ ا گر آئینی ترمیم ظلم کرے تو کیا اس پر سٹینڈ نہیں لینا چاہئے۔ آئینی ترمیم میں اتنی جلدی کیا ہے، اگر ہم اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے تو نقصان ہوگا۔ آئیں فرد واحد کی بجائے پاکستان کے لئے ترمیم کریں۔ مولانا فضل الرحمن کا شکریہ انہوں نے زیرک سیاستدان کا رول ادا کیا۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے 26 ویں آئینی ترمیم کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح یہ ترمیم ہو رہی ہے وہ میرے خیال میں جرم ہے۔ سینٹ میں پی ٹی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آئین پر اتفاق رائے نہیں ہوتا ہے تو پھر وہ آئین مر جاتا ہے۔ 1956ء‘ 1962ء کے آئین میں بھی قوم کا اتفاق رائے نہیں تھا جو اپنی موت آپ مر گیا۔ ہمارے ساتھی گرفتاری کے خوف کی وجہ سے نہیں آئے۔ آئینی ترمیم کے لیے لوگوں کو زد و کوب کرکے ووٹ دینے کا عمل ہے، لوگوں کی رضا مندی شامل نہیں، یہ عمل آئین اور جمہوریت کی خلاف ورزی ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے قاضی فائز عیسیٰ کے لئے کوئی ترامیم نہیں کی ہیں۔ آئینی ترمیم کے حق میں پیپلز پارٹی کے 24ارکان، مسلم لیگ (ن) کے 19، جے یو آئی کے 5، بی اے پی کے 4 ، ایم کیو ایم کے 3، اے این پی کے 3، بی این پی کے 2 ، پی ایم ایل کیو کے ایک اور 4 آزاد سینیٹرز بشمول انوار الحق کاکڑ، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور عبد القادر نے ووٹ دیا جبکہ چھبیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت میں اپوزیشن کی جانب سے چار ووٹ ڈالے گئے۔ چار ووٹرز میں تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر‘ سینیٹر عون عباس بپی‘ سینیٹر حامد خان جبکہ مجلس وحدت المسلمین کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر راجہ ناصر عباس نے ووٹ دیا۔ دوسری جانب بی این پی مینگل کے دو سینیٹرز سینیٹر نسیمہ احسان اور سینیٹر قاسم رانجھو نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیکر منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔ مجموعی طور پر حمایت میں 65 جبکہ مخالفت میں چار ووٹ ڈالے گئے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر نے اتوار کو ایوان بالا میں 26ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کرنے کے بعد ایوان کو ترمیم کے حوالے سے اس کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی مسودہ ہے جو خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا، ہائیکورٹ کے معاملات میں صوبوں کی نمائندگی بھی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ 26ویں آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے اور وزیراعظم نے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار پارلیمنٹ کو تفویض کر دیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی میں شفافیت لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی نامزدگی اب جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے پاس ججز کی کارکردگی جانچنے کا بھی اختیار ہوگا، جو ججز کام نہیں کر رہے یا جن کی کارکردگی مناسب نہیں ہے، ان کی رپورٹ کمیشن کو دی جائے گی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت سے یہ معاملہ شروع ہوا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میاں نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے آئینی عدالت کے بارے میں بات کی تھی، اپوزیشن سے تجویز آئی کہ آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچز پر اتفاق کیا جائے۔ جبکہ سوموٹو سے لے کر چیف جسٹس کے تقرر تک کے معاملات بھی ترمیم میں شامل کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کے درمیان مشاورت سے آئینی عدالت سے آئینی بنچ پر اتفاق کیا گیا۔ اس کی پی ٹی آئی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ اس میں 5ترامیم پیش کریں گے، اس پر اتفاق رائے ہے۔