نئی ترمیم: 2028 میی سود کا خاتمہ، چیف جسٹس کی میعاد 3 سال، ججز، آئینی بنچوں کی تشکیل جوڈیشل کمشن کریگا
اسلام آباد (عترت جعفری ، وقار عباسی ،رانا فرحان اسلم ) سینٹ نے آئین دوتہائی اکثریت سے 26 آئینی ترمیم کی منظوری دے دی، جس کی تفصیلات کے مطابق آئین میں ایک نئے آرٹیکل 9 اے کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت ہر شخص کو صاف ستھرے صحت مند اور پائیدار ماحول کا استحقاق حاصل ہے، آئین کے آرٹیکل 48 میں ترمیم کے تحت کابینہ یا وزیراعظم کی طرف سے صدر کو اگر کوئی ایڈوائس دی جائے تو اس کے بارے میں کسی ٹریبونل یا کسی اتھارٹی کی طرف انکوائری نہیں ہو سکے گی،آرٹیکل 111 میں ترمیم سے ایڈوکیٹ جنرل کے الفاظ کے بعد ایڈوائزر کے الفاظ شامل کیئے، آرٹیکل 175 اے میں ترمیم،کلاز ون میں شریعت کورٹ کے الفاظ کے بعد ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کے تجزیہ کے الفاظ کو شامل کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے کمیشن بنایا جائے گا، اس میں چیف جسٹس اف پاکستان، سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز، وفاقی وزیر قانون، اٹانی جنرل، پاکستان بار کی طرف سے نامزد ایڈوکیٹ جبکہ سینٹ 2 ارکان اور قومی اسمبلی سے دو ارکان شامل، اپوزیشن کے 2 ارکان لیے جائیں گے، ایک سینٹ، دوسرا قومی اسمبلی سے ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائیگا، چیف جسٹس تین سال کیلئے تعینات کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے 3 موسٹ سینیئر ججز میں سے ایک نام کی سفارش کرے گی، وزیراعظم نام صدر مملکت کو بھیج دیں گے، اگرنامزد جج اس منصب کو قبول نہ کریں تو کمیٹی دوسرے سینئر ترین جج پر غور کرے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی کے8 ارکان شامل ہوں گے،چار سینٹ سے شامل ہوں گے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو کمیٹی سینٹ کے ارکان پر مشتمل ہوگی، ہر پارلیمانی پارٹی کو کمیٹی میں متناسب نمائندگی دیجائے گی،خصوصی پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے14دن کے اندرکر لیا جائیگا، اپنی نئی نامزدگی کو چیف جسٹس کی ریٹائرمینٹ کی تاریخ سے تین دن قبل ارسال کر دیگی۔ اس کمیٹی یا کمیشن کے کسی بھی ایکشن یا فیصلے کو صرف اس بنیاد پر زیر سوال نہیں لایا جا سکے گا کہ اس میں کوئی اسامی خالی تھی یا کسی ممبر نے اجلاس میں شرکت نہیں کی،کمیٹی اجلاس ان کیمرا ہو ں گے۔ جوڈیشل کمیشن کے ممبران پارلیمنٹ سمیت چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز شامل ہوں گے، آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار بھی جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا۔سپریم کورٹ ہائی کورٹ یا فیڈرل شریعت کورٹ میں موجود کسی بھی اسامی کے لیے ایک فرد کو نامزد کرے گا یہ نام وزیراعظم کو بھیجا جائے گا، جو اسے صدر پاکستان کو بھیج دیں گے۔کمیشن ہائی کورٹ کے ججزکی کارکردگی کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لے گا، مجوزہ ترمیم کے مطابق غیر ملکی شہریت کے حامل کو سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا جا سکے گا صرف پاکستانی جج بن سکیں گے،آئین کے آرٹیکل 179 میں ترمیم کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کے منصب کی معیاد تین سال ہوگی، اگر وہ 65 سال کی عمر تک تین سال پورے ہونے سے پہلے پہنچ جاتا ہے یا استعفی دے دیتا ہے یا اسے ہٹا دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ متعدد آئینی بینچ ہوں گے، بینچز کے ججز کی شرائط جوڈیشل کمیشن آف پاکستان طے کرے گا،ان بینچز کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی بنچ ما سوائے آئینی بینچز کے، سپریم کورٹ کی آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت اوریجنل دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کرے گا نہ ہی آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے ایڈوائزری دائرہ اختیار کو بروئے کار لائے گا،آئینی بینچ پانچ ججز سے کم نہیں ہوگا، ان کے نامزدگی تین سینئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، ایسے تمام معاملات جو اس وقت سپریم کورٹ کے پاس زیر سماعت ہیں آئینی بینچز بنتے ہی انہیں منتقل ہو جائیں گے۔ مجوزہ ایک اور ترمیم کے تحت تمام ہائی کورٹس کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی درخواست میں درج مندرجات سے ہٹ کر کوئی حکم ڈیکلریشن نہ دیں۔ سپریم کورٹ میں جج بننے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کا ہائی کورٹ میں کم از کم پانچ سال کا تجربہ ہونا چاہیے، وکیل کو سپریم کورٹ کا جج بنایا جا سکے گا، جو ہائی کورٹ میں کم از کم 15 سال ایڈوکیٹ رہا ہو اور سپریم کورٹ کا بھی ایڈوکیٹ ہو، ہائی کورٹ کے کسی جج کی کارکردگی بہتر نہ ہو تو اس پر جوڈیشل کمیشن جج کو اپنے کام میں بہتری لانے کے لیے مناسب معیاد فراہم کرے گا۔ اگر اس مدت میں جج کی کارکردگی اطمیان بخش نہ ہو تو کمیشن اپنی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دے گا، ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے ضروری ہوگا کہ فرد پاکستان کا شہری ہو اور اس کی عمر 40 سال سے کم نہ ہو، اس کا ہائی کورٹ کا تجربہ 10 سال کا ہونا چاہیے، یا دس سال جوڈیشل آفس کا تجربہ ہو، ججز کو منصب سے الگ کرنے کے لیے کمشن کی طرف سے آرٹیکل 175 اے کے تحت اگر کوئی رپورٹ آتی ہے یا کسی سورس سے معلومات ملتی ہیں اور کونسل یا صدر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا جج اپنی ذمہ داری مناسب انداز سے نبھانے کے قابل نہیں رہا، یا ذہنی یا جسمانی معذوری ہے یا نااہل ہے یا مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہے تو کونسل کمشن کی رپورٹ پر یا صدر کی ہدایت پر معاملے کی انکوائری کرے گا، انکوائری رپورٹ چھ ماہ کے اندر مکمل کی جائے گی، کونسل اپنی رپورٹ صدر مملکت کو دے گی کہ جج اپنی فرائض انجام دینے سے قاصر ہے، ناہل پایا گیا ہے یا مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہے، اس کو منصب سے ہٹایا جائے تو صدر پاکستان اسے اپنے منصب سے ہٹا سکیں گے۔ کونسل کا اپنا ایک الگ سیکرٹیریٹ ہوگا، جس کے سربراہ سیکرٹری ہوں گے، آئینی بینچز اسلام آباد اور صوبوں میں بھی بنائے جائیں گے صوبوں میں بینچز بنانے کے لیے صوبائی اسمبلیوں سے وہ 51 فیصد کے اکثریت کے ساتھ ایک قرارداد منظورلانا پڑے گی، اسی طرح اسلام اباد میں بینچز بنانے کے لیے پارلیمنٹ کی جوائنٹ سیٹنگ میں ایک قرارداد منظور ہوگی 51 فیصد کی حمایت سے قرارداد منظوری کے بعد اسلام اباد میں بینچ تشکیل دیا جا سکیں گے، علمائے اسلام کی طرف ترامیم تجویز کی گئی ان میں سے ایک کے تحت 40 فیصد ارکان کی بجائے اب 25 فیصد ارکان کی حمایت ملنے پر کوئی بھی معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جا سکے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان نئے سربراہ یا نئے ممبر کی تعیناتی تک اپنی معیاد مکمل ہونے کے بعد بھی خدمات جاری رکھ سکیں گے ۔جنوری2028تک سود کو ختم کرنے کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی ۔