اکثریتی ججز کے فیصلے، وضاحتوں میں غلطیاں، امید ہے درست کرینگے: جسٹس فائز
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں دو ججز کا اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اقلیتی فیصلے میں اضافی نوٹ بھی لکھا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنے اختلافی فیصلے اور اضافی نوٹ میں لکھا کہ امید ہے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے اپنی غلطیوں کا تدارک کریں گے۔ فیصلے میں آئین کی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا ان کا فرض ہے، توقع ہے اکثریتی ججز اپنی غلطیوں پر غور کرکے درست کریں گے، بدقسمتی سے نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوسکی، ساتھی ججز جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے اس کیخلاف ووٹ دیا۔ آٹھ ججز کا 12 جولائی کا مختصر اور 23 ستمبر کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے، 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں، آٹھ ججز نے اپنی الگ ورچوئل عدالت قائم کی، مخصوص نشستوں کے کیس میں اپیلوں کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں، اکثریتی ججز نے وضاحت کی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی، کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا، اس پر عملدرآمد "بائنڈنگ" نہیں، فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے، امید کرتا ہوں اکثریتی ججز اپنی غلطیوں کی تصیح کریں گے، بردار ججز یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے، بد قسمتی سے اکثریتی مختصر فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر سماعت مقرر نہیں ہوسکی۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا کہا گیا، دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارا آئین آسان فہم ہے، اکثریتی فیصلے میں کیس کی بنیادی چیزوں کو نظر انداز کیا گیا، ملک کا نظام عوام کے منتخب نمائندے چلاتے ہیں، ججز کو ذاتی ترجیحات کے بجائے طے شدہ رولز کو مدنظر رکھنا چاہیے، ہمیں وہ کرنا چاہیے جو ہمارا آئین کہتا ہے۔ ہم نے 80 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا جائزہ لیا جنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی،41 امیدواروں نے واضح طور پرخود کو آزاد امیدوار قرار دیا، شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ 20 دسمبر 2023 سے 24 دسمبر 2023 تک تھی، کسی بھی امیدوار یا پی ٹی آئی کی قیادت نے دعویٰ نہیں کیا کہ آزاد امیدوار پارٹی امیدوار تھے، ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ظاہر کرے کہ ان 41 امیدواروں کو آزاد امیدوار بننے پر مجبور کیا گیا، ریکارڈ پر نہیں کہ ان 41 امیدواروں پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا گیا، ان حالات میں کوئی وجہ نہیں کہ ان 41 افراد کو پی ٹی آئی کا نامزد امیدوار سمجھا جائے۔ ججز مقدمات کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق، دستیاب مواد کی بنیاد پر کرتے ہیں، اس طرح کے کسی بھی دعوے کی حمایت ریکارڈ سے ہونی چاہیے جو اس معاملے میں موجود نہیں، یہ 41 امیدوار آزاد ہی تھے، معزز اکثریتی ارکان نے41 آزاد امیدواروں کو یہ اختیار دیا کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو سکتے ہیں، انتہائی احترام کے ساتھ، ہم اکثریتی ارکان کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے، ہم اتفاق نہیں کرتے کہ 41 آزاد امیدواروں کو موقع فراہم کیا جائے، ان ارکان نے پہلے ہی اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے سنی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی تھی، وہ اب 41 ارکان سنی اتحاد کے رکن ہیں۔ نہ آئین نہ ہی ایکٹ ہمیں یہ اختیار دیتا ہے کہ ہم انہیں کسی اور سیاسی جماعت میں شمولیت کی ہدایت دیں، آئین و قانون اجازت نہیں دیتا کہ انہیں کسی اور سیاسی جماعت میں شمولیت کا 15 دن کا موقع یا اضافی راستہ دیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ عدالتی فیصلے کے ذریعے آئین کو مصنوعی الفاظ میں نہیں ڈھال سکتی، آرٹیکل 51 اور 106 بالکل واضح ہے، سنی اتحاد کونسل کے کسی امیدوار نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل میں آزاد ارکان نے شمولیت اختیار کی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے کوئی فہرست بھی جمع نہیں کرائی۔ سنی اتحاد کونسل آزاد امیدواروں کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کی اہل نہیں ہے، تحریک انصاف کے امیدواروں میں کئی وکیل بھی الیکشن لڑ رہے تھے، تحریک انصاف نے آزاد امیدوار قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں، مخصوص نشستوں کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افسر کے اقدام کی سزا نہیں دی جا سکتی، یہ مقدمہ تحریک انصاف کا نہیں مخصوص نشستوں کے آئینی حق کا ہے۔ ریٹرننگ افسروں نے تحریک انصاف کے 39 ارکان کو آزاد ڈکلیئرڈ کیا، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، 41 ارکان کی تحریک انصاف سے وابستگی ثابت نہیں ہوتی، آئین و قانون اجازت نہیں دیتا کہ کسی ممبر کو سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دے۔