جسٹس منصور نے اپنا مقام برقرار نہیں رکھا، کاش خط نہ لکھتے، عمرے پر چلے جانا ہی کافی تھا: رانا ثنا
لاہور (نیوز رپورٹر) وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور و مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ عمران کی اہلیہ اور بہنوں کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں، ماضی میں عدلیہ کی طرف سے جس قسم کے معاملات ہوتے رہے ہیں 26 ویں آئینی ترمیم سے ان کا راستہ رک گیا ہے۔ ایک طرف معاشی استحکام آ رہا ہے اور دوسری طرف سے راستہ رکا ہوا ہے لیکن پھر بھی ہمیں بے خوف نہیں ہونا چاہیے اور احساس رکھتے ہوئے پوری محنت اور کوشش کرنی چاہیے۔ پارلیمنٹ نے جسٹس یحییٰ آفریدی کا مناسب انتخاب کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں جس طرح کے الفاظ کا استعمال کیا ہے کاش وہ خط نہ لکھتے ان کا عمرے پر چلا جانا ہی کافی تھا۔ ان خیالات کا اظہارا نہوں نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تنظیمی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انوشہ رحمان، رانا محمد ارشد بھی موجود تھے۔ رانا ثناء نے کہااس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت کو ختم کرنے اور منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ہدف بنا کر نکالنے میں اپنا انتہائی غیر آئینی اورغیر قانونی کردار ادا کیا۔ اس سے پاکستان مسلم لیگ (ن)، نواز شریف یاشریف فیملی کا جو نقصان ہو وہ اپنی جگہ لیکن پاکستان کا یہ نقصان ہوا کہ اس مداخلت کے نتیجے میں اور جو پراجیکٹ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے مل کر ملک پر عمران خان کی صورت میں مسلط کیا، اس سے پاکستان اگلے ساڑھے تین سال میں آگے بڑھتے بڑھتے ڈیفالٹ کے کنارے پر آ گیا۔ آج سے چار پانچ ماہ قبل تک یہی صورتحال تھی اور اب خدا خدا کر کے اللہ کے فضل و کرم سے شہباز شریف کی انتھک محنت سے اور نواز شریف کی قیادت میں پاکستان معاشی طور پر بحرانی کیفیت سے نکل آیا ہے اور حالیہ جو آئینی ترمیم ہوئی ہے اس کی وجہ سے یہ بھی امید پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ یقین ہے کہ اب پاکستان کو دوبارہ ان چور راستوں سے نشانہ نہیں بنایا جائے گا جن سے پہلے بنایا جاتا رہا۔ شہباز شریف کا بطور وزیر اعلیٰ پنجاب دس سالہ دور بھی ترقی کا دور تھا لیکن مریم نواز شریف کی قیادت میں پہلی پنجاب حکومت ہے جس میں پہلی مرتبہ عام آدمی کی ضروریات، معذور، مریض، غریب آدمی جس کے پاس چھت نہیں ہے وہ طالبعلم جس کے پاس فیس نہیں ہے جو اپنی تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتا وہ خاتون جوگزر اوقات کے لئے پریشان ہے۔ عام آدمی جوسستی روٹی کے حصول کا خواہشمند ہے ان تمام طبقات کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا جس طرح موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف خیال کر رہی ہیں اور ذاتی طور پر محنت کر رہی ہیں۔ اس سے ایک عام آدمی کی مشکلات میں کمی آ رہی ہے۔ ماضی میں عدلیہ کی طرف سے جس قسم کے معاملات ہوتے رہے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم سے ان کا بھی راستہ رک گیا ہے۔ عدلیہ میں انتہائی معزز ججز صاحبان جو باہم دست و گریبان ہیں ایک دوسرے کو خطوط پر خطوط لکھ رہے ہیں اور ان خطوط میں ایسی گفتگو، الفاظ استعمال کر رہے ہیں کہ گلی محلے میں لڑنے والے دو لوگ بھی اس قسم کی مثالیں، الفاظ استعمال نہیں کرتے، ان پڑھے لکھے لوگوں سے اس طرح کے الفاظ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس صورتحال میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا انتخاب بہت ہی مناسب نظر آتا ہے کیونکہ انہوں نے آج تک کسی معاملے میں دخل نہیں دیا اور خود کو علیحدہ رکھا ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے خط میں جو الفاظ اور زبان استعمال کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے مقام کو بر قرار نہیں رکھا، وہ بہت اچھے انسان اور جج ہیں ان کے کریڈٹ پر بہت اچھے فیصلے ہیں لیکن کاش وہ کل کا خط نہ لکھتے ان کا عمرے پر چلے جانا ہی کافی تھا۔ ان کا عمرے پر جانا ہی بیان کر رہا تھا جن کا اظہار انہوں نے خط میں۔ ذاتی طو ر پر سمجھتاہوں کہ مخالفین کی خواتین کا خیال رکھنا پنجاب کی خوبصورت روایات میں سے ایک خوبصورت روایت ہے۔ ہم سیاسی مخالفت میں اس حد تک جانے کو مناسبت نہیں سمجھتے لیکن بد قسمتی سے یہ پریکٹس پی ٹی آئی کے دور سے شروع ہوئی۔ شہباز شریف کی بیٹیوں کو اہلیہ کو جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں انہیںعدالتوںمیں گھسیٹا گیا ، انہیں تاریخوں میں پیش ہونا پڑا ، مریم نواز شریف کو جس طرح سے گرفتار کیا گیا جس صورتحال میں جیل میں رکھا گیا یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس کے باوجود بھی میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ تحریک انصاف کا یجنڈا فساد ہے۔ وہ ایک انتشاری ٹولے کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔وہ کسی بات پر مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تین سینئر ججز میں سے شہباز شریف کسی ایک کا انتخاب کرتے تو آپ کہتے یہ (ن) لیگ نے کیا ہے اسی لیے شہباز شریف نے کہا کہ یہ میں نے نہیں کرنا پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکن سینیٹرز نے جو خط لکھا ہے وہ پہلے غزہ بیروت کی طرف دیکھیں ورنہ یہ ان کی منافقت ہے۔