پی آئی اے کو اس حال تک پہنچانے میں ہر حکومت نے حصہ ڈالا، اونے پونے نہیں بیچ سکتے: وزیر نجکاری
اسلام آباد +لاہور(خبرنگار+نامہ نگار) وفاقی وزیر نجکاری، سرمایہ کاری بورڈ اور مواصلات عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ہم سب کا قومی اثاثہ ہے جسے بہتر پالیسیوں اور مناسب سرمایہ کاری کے ساتھ آج بھی منافع بخش بنایا جا سکتا ہے اور ہم اسے کسی طور بھی اونے پونے داموں نہیں بیچ سکتے۔ کے پی کے، پنجاب یا کسی اور صوبے کی حکومت اگر پی آئی اے کی نجکاری میں حصہ لینا چاہتی ہے تو ہم ان کا خیر مقدم کریں گے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا ڈھانچہ میری 6 ماہ کی وزارت سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا، میرے پاس اس فریم ورک میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں تھا اور نہ ہی میری ذمہ داری پی آئی اے کو ٹھیک کرنے کی تھی، میرا کام پی آئی اے کو بیچنا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں، لیکن قوم بخوبی جانتی ہے کہ پی آئی اے کو اس حال تک پہنچانے میں ہر حکومت نے بلا تفریق اپنا حصہ ڈالا۔ میں بطور وفاقی وزیر نجکاری ان قوانین و ضوابط کا پابند ہوں جن کے تحت مجھے نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانا ہے اور پی آئی اے کی نجکاری ضرور کریں گے اور بہتر انداز میں کریں گے۔ عبدالعلیم خان نے کہا کہ جہاں تک میری وزارت کا تعلق ہے میں نے مواصلات کے شعبے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سرکاری ادارے کی طرف سے 50ارب روپے کے ریونیو کا اضافہ کیا ہے۔ جس کے لئے میں نے نہ تو کوئی تشہیری مہم چلائی، اشتہارات دیے اور نہ ہی اداریے لکھوائے۔ عبدالعلیم خان نے گزشتہ دنوں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے سامنے آنے والے موقف پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ بھی مجھ پر تنقید کرتے ہوئے نصیحتیں کر رہے ہیں جو خود لمبا عرصہ پرائیویٹائزیشن کے محکمے کے وزیر رہے۔ اگر وہ اپنے دور میں اس مسئلے کو حل کر لیتے تو آج یہ معاملہ مجھ تک نہ پہنچتا۔ انہوں نے کہا کہ بطور وفاقی وزیر پاکستان پوسٹ کے محکمے سے ایسی 3500 آسامیاں ختم کرائی ہیں جو قومی خزانے پر 2.8ارب روپے کا بوجھ تھیں حالانکہ نوکریاں کسی بھی سیاسی رہنما کیلئے بنیادی ضرورت ہوتی ہیں لیکن میں نے ملکی مفاد کو اپنی سیاست پر ترجیح دی۔ میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے عبدالعلیم خان نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ خود حالات بگاڑنے والے آج مجھ سے سوال کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس پی آئی اے کو یہاں تک پہنچانے میں بلا تفریق ہر حکومت نے اپنا حصہ ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عہدہ ہمارے پاس امانت ہے، وزارت پر اللہ تعالی اور اس قوم کو جوابدہ ہوں، میں نے آج تک حکومت سے ایک روپیہ بھی تنخواہ، ٹی اے ڈی اے یا کسی اور مد میں وصول نہیں کیا، سرکاری گاڑی لی اور نہ ہی کوئی سرکاری ملازم رکھے ہیں، میرے کویت، روس، چین اور دیگر ملکوں کے دورے اپنے خرچ پر تھے اور جہاں تک پی آئی اے کی نجکاری کا تعلق ہے میں اس دن بھی سرکاری دورے پر سعودی عرب کے وزیر نجکاری کے ساتھ پاکستانی سفارتخانے ریاض میں اجلاس میں تھا۔ جبکہ اس سے پہلے پرائیویٹائزیشن کمشن بورڈ اور سی سی او پی کے اجلاس میں بھی میں نے شمولیت کی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک پی آئی اے کی نجکاری کا تعلق ہے ہمارے پاس مزید آپشن موجود ہیں، اس ادارے کی باقی ماندہ 200ارب روپے کے واجبات کو بھی حکومت نکال کر "کلین پی آئی اے" دے سکتی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شفاف تھا، سب کچھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے ہوا اور لائیو دکھایا گیا۔ اب اس کے نتائج کے حوالے سے قیاس آرائیاں کرنے کی بجائے ہم سب کو مل کر اس کا حل نکالنا ہے، ایک دوسرے کو الزام اور ماضی کو رونے کی بجائے ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ اس وقت پی آئی اے کے علاوہ 9ڈسکوز کی نجکاری پائپ لائن میں ہے۔ جہاں تک سرمایہ کاری کا تعلق ہے صرف سعودی عرب سے ایم او یوز کی تعداد 34ہو چکی ہے اور 2.8ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مختلف معاہدوں پر عملی پیشرفت کا آغاز ہو چکا ہے۔ این ایچ اے میں سخت پالیسیاں متعارف کروائی ہیں، ایکسل لوڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں، موٹروے اور قومی شاہراہوں کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔ قیاس آرائیوں، تبصروں اور الزامات سے گریز کرنا چاہیے۔ پی آئی اے میں پوٹینشل موجود ہے،24کروڑ لوگوں کے پاس صرف ایک ائیر لائن جہاں سے وہ ڈائریکٹ فلائٹ کے ذریعے یورپ اور امریکہ جا سکتے ہیں اور ادارے میں بہتری لا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔