سموگ کیس، شہریوں کو پابند کرنے پر غور کرینگے اکتوبر سے دسمبر تک شادیاں نہ رکھیں: ایڈووکیٹ جنرل
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سموگ پر قابو پانے کیلئے طویل المیعاد پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اور حکومت کو محض پالیسی پیپرز سے آگے جانا ہو گا، ایسے کام نہیں چلے گا۔ سموگ پر قابو پانے کیلئے دس برس کی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، ٹرانسپورٹ سیکٹر ماحولیاتی آلودگی کی ستر سے اسی فیصد وجہ ہے۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں سمگلڈ فیول استعمال ہوتا ہے جو بہت لو گریڈ فیول ہے۔ سوچنا پڑے گا کہ لاہو شہر کے اندر موجود انڈسٹری کا کیا کرنا ہے۔ بیجنگ نے تمام صنعتیں شہر سے باہر منتقل کیں۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے سموگ تدارک کے متعلق کئے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔ جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دئیے لاہور میں سموگ سیزن کے دوران حکومت کو بڑے تعمیراتی پراجیکٹس کو روکنے کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے، پرائیویٹ تو چھوڑیں حکومت کی سپیڈو بسیں کتنا دھواں چھوڑ رہی ہیں بتا نہیں سکتے۔ اگر اس مرتبہ ستمبر میں سموگ آئی ہے تو اگلی بار یہ اگست میں آسکتی ہے۔ وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے میں آن بورڈ ہونا پڑے گا۔ اب جو سموگ آگئی ہے یہ ختم نہیں ہوگی جنوری تک رہے گی۔ یہ حکومت کیلئے جاگنے کا وقت ہے۔ اب ہمیں اگلے سال کیلئے ابھی سے سوچنا پڑے گا۔ یہ حکومت کے کرنے کے کام ہیں ہم اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ بیجنگ والوں نے بات کی تھی لیکن حکومت نے اہمیت نہیں دی اور معاملہ رک گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا چین کی کئی تجاویز کے بارے میں عمل کیا، کچھ مشکلات تھیں جن کے بارے میں عدالت کو آگاہ کریں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سموگ تدارک کیلئے پالیسی بنا لی ہے اور بجٹ بھی مختص کیا ہے۔ شہریوں کو پابند کرنے پر غور کریں گے کہ وہ اکتوبر سے دسمبر تک شادیاں نہ رکھیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس حکومت نے سابق حکومتوں سے اچھے کام کئے ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دئیے کہ اگر حکومت سکول بسوں کا معاملہ حل کردے تو بہت آلودگی ختم ہو جائے گی، پوری دنیا میں دکانیں شام پانچ بجے بند ہوتی ہیں لیکن یہاں رواج ہے کہ صبح نکلتے ہی رات تک گھومتے ہیں۔ درخواست پر مزید سماعت 15 نومبر کو ہوگی۔