دھمکیوں کیساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے، رہائی کا امکان نہ جلسہ کرنے دینگے: وفاقی وزراء
اسلام آباد (وقائع نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ عمران خان سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، مذاکرات دھمکیوں سے نہیں ہوتے، میں مذاکرات کے حق میں ہوں لیکن ایسی کوئی صورت نہیں ہے کہ دھمکیاں دیں اور کہیں کہ بات چیت کرنی ہے، اجازت کے بغیر کوئی جلسہ جلوس کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کو بیلاروس کا وفد آرہا ہے جس میں 10 وزراء ہیں، 25 کو بیلاروس کے صدر آرہے ہیں جن کا 3 دن کا دورہ ہے، ہم وہیں کنٹینر لگا رہے ہوں گے، موبائل فون سروس بند کررہے ہوں گے، ان کی حفاظت ہماری پہلی ترجیح ہوگی، اس کے بعد ہمیں اپنے شہریوں کی حفاظت کرنی ہے، اس لیے ہم کسی کو جلسے جلوس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ احتجاج کو کوئی نہیں روکتا، آپ جہاں ہیں وہاں رہ کر احتجاج کریں لیکن اسلام آباد آکر احتجاج کرنا اور وہ بھی ان دنوں میں احتجاج کرنا جب کوئی اہم ایونٹ ہورہا ہے، عوام فیصلہ کرے کہ یہ اہم دنوں میں احتجاج کیوں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا جو بھی آرڈر ہوگا اس پر عمل کریں گے، احتجاج کی کال کے حوالے سے ہم نے تیاریاں شروع کردی ہیں، موبائل فون کی بندش کا فیصلہ کل رات تک کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ’’جیل سے رہا کرو تو احتجاج ملتوی کروں گا‘‘ کا بیان قیدی کی فرسٹریشن اور گھبراہٹ کا اعتراف ہے۔ ثابت ہوا کہ 24 نومبر کو انتشار کی کال کا مقصد ’’ڈیل‘‘ کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ جمعرات کو بانی پی ٹی آئی کے جیل سے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو کہتا تھا کہ ڈیل نہیں کروں گا، اب ’’ڈیل کرلو، ڈیل کرلو‘‘ کی صدائیں دے رہا ہے اور وفاق پر لشکر کشی کرنے پر بضد ہے۔ آپ سے ڈیل صرف ’’قانون‘‘ کرے گا جس کے آپ مجرم ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کی کال پر ہم بالکل پریشان نہیں، بانی پی ٹی آئی مذاکرات میں جو شرائط لگا رہے وہ ماننے والی نہیں، وہ چاہتے ہیں انہیں وزیراعظم ہائوس میں اور ہم سب کو اڈیالہ جیل میں بٹھا دیا جائے، ان کی مینڈیٹ والی شرط پوری نہیں ہوگی، علی امین گنڈاپور کے ساتھ اس کے لیول کے مطابق بات ہورہی ہے۔ ا یک انٹرویو میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جب پروپیگنڈا ہورہا تھا کہ بانی کی بجلی، ورزش بند ہے تو اس وقت بھی ایسا کچھ نہیں تھا، بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں بند ہیں ہمیں معلوم تھا، جو ملاقاتیں بند تھیں وہ قومی مفاد میں تھا اور اب بھی ملاقاتیں قومی مفاد میں ہورہی ہیں، بانی پی ٹی آئی کے ضمانت کے فیصلے سے حکومت کو کوئی پریشانی نہیں۔ اوور ایکٹ نہیں ہوناچاہثے، 190 ملین پائونڈ کیس میں سزا بھی دو جمع دو چار ہے پھر اس پر تنقید کی جائے، عدالت سے ریلیف یا سزا ملے دونوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ کوئی بات ہوئی نہ ہوگی، 24 نومبر کے احتجاج کو آگے پیچھے کرنے کی بات ہورہی ہے، جو پی ٹی آئی بات کرتی ہے اس پر وضاحت ڈی جی آئی ایس پی آر کرچکے ہیں۔انہوں نے کہا حکومت کو ملاقاتوں سے مسئلہ اس لئے نہیں کہ عمران خان جو شرط لگا رہے وہ ماننے والی نہیں ہیں۔ کوئی ایسا نہیں کرسکتا کہ حکومت چھوڑ کر پی ٹی آئی کو بٹھا دے۔پی ٹی آئی کی مینڈیٹ والی شرط پوری نہیں ہوگی۔ علی امین گنڈاپور کے ساتھ اس کے لیول کے مطابق بات ہورہی ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملنا ممکن نہیں ہے، پاکستان تحریک انصاف اب راہ فرار ڈھونڈ رہی ہے۔ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے کہ 24 نومبر کا احتجاج نہ کرنا پڑے، سیاسی اور عسکری قیادت ملکی معاملات کو آگے لے کر جا رہی ہے، احتجاج میں دو دن باقی ہیں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔وزیر دفاع نے علی امین گنڈاپور اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گنڈاپور روز اول سے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں، علی امین گنڈاپور بانی پی ٹی آئی کی مرضی سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔اپیکس کمیٹی اجلاس میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی گفتگو سے متعلق سوال پر خواجہ آصف نے جواب دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودگی میں وزیر اعلیٰ کا لہجہ کیسا ہو سکتا ہے؟جلسے کی اجازت دی جا سکتی ہے، وفاق پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، بانی پی ٹی آئی صیہونی لابی کا بندہ ہے۔